Iztirab

Iztirab

آندھی کی زد میں شمع تمنا جلائی جائے

آندھی کی زد میں شمع تمنا جلائی جائے 
جس طرح بھی ہو لاج جنوں کی بچائی جائے 
بے آب و بے گیاہ ہے یہ دل کا دشت بھی 
اک نہر آنسوؤں کی یہاں بھی بہائی جائے 
عاجز ہیں اپنے طالع بیدار سے بہت 
ہر رات ہم کو کوئی کہانی سنائی جائے 
سب کچھ بدل گیا ہے مگر لوگ ہیں بضد 
مہتاب ہی میں صورت جاناں دکھائی جائے 
کچھ ساغروں میں زہر ہے کچھ میں شراب ہے 
یہ مسئلہ ہے تشنگی کس سے بجھائی جائے 
شہروں کی سرحدوں پہ ہے صحراؤں کا ہجوم 
کیا ماجرا ہے آؤ خبر تو لگائی جائے 
نازل ہو جسم و روح پہ جب بے حسی کا قہر 
اس وقت دوستو یہ غزل گنگنائی جائے 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *