Iztirab

Iztirab

آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی

آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی 
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی 
آ رہی ہے جسم کی دیوار گرنے کی صدا 
اک عجب خواہش تھی جو اب کے برس پوری ہوئی 
اس خزاں آثار لمحے کی حکایت ہے یہی 
اک گل نا آفریدہ کی ہوس پوری ہوئی 
آگ کے شعلوں سے سارا شہر روشن ہو گیا 
ہو مبارک آرزوئے خار و خس پوری ہوئی 
کیسی دستک تھی کہ دروازے مقفل ہو گئے 
اور اس کے ساتھ روداد قفس پوری ہوئی 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *