Iztirab

Iztirab

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے 
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے 
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں 
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے 
میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا ہوا 
یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے 
ان کا وعدہ اور مجھے اس پر یقیں اے ہم نشیں 
اک بہانہ ہے تڑپنے تلملانے کے لیے 
جب سے پہرہ ضبط کا ہے آنسوؤں کی فصل پر 
ہو گئیں محتاج آنکھیں دانے دانے کے لیے 
آخری امید وقت نزع ان کی دید تھی 
موت کو بھی مل گیا فقرہ نہ آنے کے لیے 
اللہ اللہ دوست کو میری تباہی پر یہ ناز 
سوئے دشمن دیکھتا ہے داد پانے کے لیے 
نعمت غم میرا حصہ مجھ کو دے دے اے خدا 
جمع رکھ میری خوشی سارے زمانے کے لیے 
نسخۂ ہستی میں عبرت کے سوا کیا تھا حفیظؔ 
سرخیاں کچھ مل گئیں اپنے فسانے کے لیے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *