Iztirab

Iztirab

آہٹ جو سنائی دی ہے ہجر کی شب کی ہے

آہٹ جو سنائی دی ہے ہجر کی شب کی ہے 
یہ رائے اکیلی میری نہیں ہے سب کی ہے 
سنسان سڑک سناٹے اور لمبے سائے 
یہ ساری فضا اے دل تیرے مطلب کی ہے 
تری دید سے آنکھیں جی بھر کے سیراب ہوئیں 
کس روز ہوا تھا ایسا بات یہ کب کی ہے 
تجھے بھول گیا کبھی یاد نہیں کرتا تجھ کو 
جو بات بہت پہلے کرنی تھی اب کی ہے 
میرے سورج آ   میرے جسم پہ اپنا سایہ کر 
بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *