آ گیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر دیکھو
دو قدم سائے کے ہم راہ بھی چل کر دیکھو
میہماں روشنیو سخت اندھیرا ہے یہاں
پاؤں رکھنا مری چوکھٹ پہ سنبھل کر دیکھو
کبھی ایسا نہ ہو پہچان نہ پاؤ خود کو
بار بار اپنے ارادے نہ بدل کر دیکھو
ابر آئے گا تبھی پیاس بجھانے پہلے
ریگ صحرا کی طرح دھوپ میں جل کر دیکھو
دن کی دیکھی ہوئی ہر شکل بدل جائے گی
رات کے ساتھ ذرا گھر سے نکل کر دیکھو
موم ہو جائے گا پتھر سا یہ دل سینے میں
لمحہ بھر کو کسی پہلو میں پگھل کر دیکھو
عمر رفتہ کو کہاں ڈھونڈھ رہے ہو مخمورؔ
اس کے کوچے میں ملے گی وہیں چل کر دیکھو
مخمور سعیدی