Iztirab

Iztirab

ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے

ابھرے جو خاک سے وہ تہ خاک ہو گئے 
سب پائمال گردش افلاک ہو گئے 
رکھتی تھی لاگ میرے گریباں سے نو بہار 
دامن گلوں کے باغ میں کیوں چاک ہو گئے 
تھے دیدہ ہائے خشک محبت کی آبرو 
کم بخت ان کے سامنے نمناک ہو گئے 
ایسا بھی کیا مزاج قیامت کا دن ہے آج 
پیش خدا تم اور بھی بیباک ہو گئے 
آتے ہی بزم وعظ سے چلتے بنے حفیظؔ 
دو حرف سن کے صاحب ادراک ہو گئے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *