Skip to content
اخلاق نہ برتیں گے مداوا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے
کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلاح نہ کریں گے
کم گوئی کہ اک وصف حماقت ہے ہر طور
کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے
اب سہل پسندی کو بنائیں گے وتیرہ
تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے
غصہ بھی ہے تہذیب تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے