اسی زمین اسی آسماں کے ساتھ رہے
جہاں کے تھے ہی نہیں اس جہاں کے ساتھ رہے
نئی زمیں پہ کھلاتے رہے شناخت کے پھول
جہاں رہے وہاں اپنی زباں کے ساتھ رہے
سجا کے نوک پلک تک وراثتوں کا جمال
ثقافت وطن میزباں کے ساتھ رہے
ہم اپنے لمحۂ موجود کے حوالوں سے
غبار قافلۂ رفتگاں کے ساتھ رہے
تراشتی رہی موج ہوائے وقت ہمیں
چٹان تھے مگر آب رواں کے ساتھ رہے
کسی شکستہ کنارے سے ربط ہی نہ رکھا
سمندروں میں کھلے بادباں کے ساتھ رہے
بدن پہ جمنے نہ دی ہم نے گرد تنہائی
خیال انجمن دوستاں کے ساتھ رہے
بس اس خیال سے کچھ اس میں تیرا ذکر بھی تھا
سنی سنائی ہوئی داستاں کے ساتھ رہے
اشفاق حسین