اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی
مگر اس بار مجھ کو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی
ارادہ تھا کہ میں کچھ دیر طوفاں کا مزہ لیتا
مگر بے چارے دریا کو اتر جانے کی جلدی تھی
میں اپنی مٹھیوں میں قید کر لیتا زمینوں کو
مگر میرے قبیلے کو بکھر جانے کی جلدی تھی
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
وہ شاخوں سے جدا ہوتے ہوئے پتوں پہ ہنستے تھے
بڑے زندہ نظر تھے جن کو مر جانے کی جلدی تھی
میں ثابت کس طرح کرتا کہ ہر آئینہ جھوٹا ہے
کئی کم ظرف چہروں کو اتر جانے کی جلدی تھی
راحت اندوری