اس کو اتنا نہ منہ لگا کہ یہ غم تیری ہستی مٹا بھی سکتا ہے
پالتو شیر بھوک لگنے پر اپنے مالک کو کھا بھی سکتا ہے
یہ تو وہ دل فگار باتیں تھیں جن کو سن کر میں رو پڑا ورنہ
سب کے آنسو سمیٹنے والا اپنے آنسو چھپا بھی سکتا ہے
اب وہ بچوں سی ضد کہاں مجھ میں زخم خوردہ ہیں انگلیاں میری
اچھا موقع ہے یہ کہ تو مجھ سے اپنا دامن چھڑا بھی سکتا ہے
منحصر سب ہے دل کے موسم پر غم کے سورج کی تو تپش ہے وہی
سردیوں میں سکوں کا پیغمبر گرمیوں میں جلا بھی سکتا ہے
آدمی کو جکڑ کے رکھا ہے اس کی مجبوریوں نے ہی ورنہ
آگ پر کھولتا ہوا پانی آگ کی لو بجھا بھی سکتا ہے
مادیت کا دور ہے زاہدؔ پیسہ بس ہاتھ ہی کی میل نہیں
وقت پڑ جائے تو یہی فتنہ آدمی کو نچا بھی سکتا ہے
زاہد ابرول