الماری سے خط اس کے پرانے نکل آئے پھر سے مرے چہرے پہ یہ دانے نکل آئے ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے مرا رستہ مٹی کے ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے ممکن ہے ہمیں گاؤں بھی پہچان نہ پائے بچپن میں ہی ہم گھر سے کمانے نکل آئے اے ریت کے ذرے ترا احسان بہت ہے آنکھوں کو بھگونے کے بہانے نکل آئے اب تیرے بلانے سے بھی ہم آ نہیں سکتے ہم تجھ سے بہت آگے زمانے نکل آئے ایک خوف سا رہتا ہے مرے دل میں ہمیشہ کس گھر سے تری یاد نہ جانے نکل آئے