ان بلاؤں سے کب رہائی ہے عشق ہے فقر ہے جدائی ہے دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے ہم بھی چلنے کو ہیں کہ آئی ہے استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں عشق نے آگ یہ لگائی ہے دل کو کھینچے ہے چشمک انجم آنکھ ہم نے کہاں لڑائی ہے اس صنائع کا اس بدائع کا کچھ تعجب نہیں خدائی ہے نہ تو جذب رسا نہ بخت رسا کیونکے کہیے کہ واں رسائی ہے ہے تصنع کہ اس کے لب ہیں لعل سب نے اک بات یہ بنائی ہے ق کیا کہوں خشم عشق سے جو مجھے کبھو جھنجھلاہٹ آہ آئی ہے میں نہ آتا تھا باغ میں اس بن مجھ کو بلبل پکار لائی ہے ایسا چہرے پہ ہے نہوں کا خراش جیسے تلوار منہ پہ کھائی ہے آئی اس جنگ جو کی گر شب وصل شام سے صبح تک لڑائی ہے اور کچھ مشغلہ نہیں ہے ہمیں گاہ و بے گہ غزل سرائی ہے توڑ کر آئنہ نہ جانا یہ کہ ہمیں صورت آشنائی ہے
میر تقی میر
![ان بلاؤں سے کب رہائی ہے 1 IMG 20240311 005241](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2024/03/IMG_20240311_005241.jpg)