Iztirab

Iztirab

ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں

ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں 
مجھ کو نظر کی آرزو اپنے جگر کو کیا کروں 
رات ہی رات میں تمام طے ہوئے عمر کے مقام 
ہو گئی زندگی کی شام اب میں سحر کو کیا کروں 
وحشت دل فزوں تو ہے حال مرا زبوں تو ہے 
عشق نہیں جنوں تو ہے اس کے اثر کو کیا کروں 
فرش سے مطمئن نہیں پست ہے نا پسند ہے 
عرش بہت بلند ہے ذوق نظر کو کیا کروں 
ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو 
ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں 
اہل نظر کوئی نہیں اس لیے خود پسند ہوں 
آپ ہی دیکھتا ہوں میں اپنے ہنر کو کیا کروں 
ترک تعلقات پر گر گئی برق التفات 
راہ گزر میں مل گئے راہ گزر کو کیا کروں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *