Iztirab

Iztirab

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا 
یقینی ہے گھڑی دو میں مریض غم کا مر جانا 
مجھے ڈر ہے گلوں کے بوجھ سے مرقد نہ دب جائے 
انہیں عادت ہے جب آنا ضرور احسان دھر جانا 
حباب آ سامنے سب ولولے جوش جوانی کے 
غضب تھا قلزم امید کا چڑھ کر اتر جانا 
یہاں جز کشتیٔ موج بلا کچھ بھی نہ پاؤ گے 
اسی کے آسرے دریائے ہستی سے اتر جانا 
مبادا پھر اسیر دام عقل و ہوش ہو جاؤں 
جنوں کا اس طرح اچھا نہیں حد سے گزر جانا 
حفیظؔ آغاز سے انجام تک رہزن نے پہنچایا 
اسی کو ہم سفر پایا اسی کو ہم سفر جانا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *