اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا
ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا
نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسم شباب رہا
کارواں ہائے صبح ہوتے گیا
میں ستم دیدہ محو خواب رہا
ہجر میں جی ڈھا گرے ہی رہے
ضعف سے حال دل خراب رہا
ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال
جان کو اپنی پیچ و تاب رہا
گھر سے آئے گلی میں سو باری
یار بن دیر اضطراب رہا
سوزش سینہ اپنے ساتھ گئی
خاک میں بھی ہمیں عذاب رہا
پردے میں کام یاں ہوا آخر
واں سدا چہرے پر نقاب رہا
حیف ہے میرؔ کی جناب سے میاں
ہم کو ان سمجھے اجتناب رہا
میر تقی میر