جون! تمہیں یہ دور مبارک، دور غم ایام سے ہو اک پاگل لڑکی کو بھلا کر اب تو بڑے آرام سے ہو ایک ادھوری انگڑائی کے مستقبل کا خون کیا تم نے اس کا دل رکھا یا اس کے دل کا خون کیا یہ جو تمہارا سحرتکلم حسن کو کرتا ہے مسحور بانو، جمال آرا اور فضہ کے حق میں ہے اک ناسور
خون جگر کا جو بھی فن ہے سچ جانو، وہ جھوٹا ہے
وہ جو بہت سچ بول رہا ہے ، سچ جانو وہ جھوٹا ہے قتل سیزر پر انطوائی جو کچھ بولا جھوٹ تھا وہ یعنی لبوں نے جتنا کچھ زخموں کو تولا جھوٹ تھا وہ میت پر سہراب کی فردوسی نے ناٹک کھیلا تھا اس کے ہونٹوں پر تھے نالے دل میں فن کا میلا تھا
حسن بلا کا قاتل ہو پر آخر کو بیچارا ہے عشق تو وہ قتال ہے جس نے اپنے کو بھی مارا ہے یہ دھوکے دیتا آیا ہے دل کو بھی دنیا کو بھی اس کے جھوٹ نے خوار کیا ہے صحرا میں لیلیٰ کو بھی دل دکھتا ہے کیسے کہوں میں،چل سے بے چل ہوتے ہیں جذبے میں جو بھی مرتے ہیں، وہ سب پاگل ہوتے ہیں
تھی جو اک صیاد تمہاری، ٹھہری ہے اک صید زبوں یعنی اب ہونٹوں سے مسیحا کے رستا ہے اکثر خون خون کی تھوکن ہے جو تمہاری، کیا ہے وہ اک پیشہ کہ نہیں تم ہو مسیحاوں کے حق میں قاتل اندیشہ کہ نہیں فن جو جز فن کچھ بھی نہ ہو، وہ اک مہلک خوش باشی ہے کار سخن پیشہ ہے تمہارا جو خونی عیاشی ہے
جون ، ہو تم جو بند بلا کے “عشاقی” میں چاق بھی ہو تم جذبوں کے سوداگر ہو اور ان کے قزاق بھی ہو عشق کی یاوہ سرائی آخر رد بھی ہونا چاہیے نا آخر کو بکواس کی کوئی حد بھی ہونا چاہیے نا میں جو ہوں باتوں کا ہوں میں، اک خاوند، اک خدا لڑکی کو پرچانے کا فن کس نے جانا میرے سوا
جان، تمہی میرا سب کچھ ہو، جی نہیں سکتا میں تم بن لمحوں کی پیکار ہے جن میں، بس ہوں سسکتا میں تم بن سنتے ہو وہ جان تمہاری، بس اب گھر تک زندہ ہے گھر کیا، وہ اٹھ بھی نہیں سکتی، بس بستر تک زندہ ہے۔