Iztirab

Iztirab

اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل

اگر موج ہے بیچ دھارے چلا چل 
وگرنہ کنارے کنارے چلا چل 
اسی چال سے میرے پیارے چلا چل 
گزرتی ہے جیسے گزارے چلا چل 
تجھے ساتھ دینا ہے بہروپیوں کا 
نئے سے نیا روپ دھارے چلا چل 
خدا کو نہ تکلیف دے ڈوبنے میں 
کسی ناخدا کے سہارے چلا چل 
پہنچ جائیں گے قبر میں پاؤں تیرے 
پسارے چلا چل پسارے چلا چل 
یہ اوپر کا طبقہ خلا ہی خلا ہے 
ہوا و ہوس کے غبارے چلا چل 
ڈبویا ہے تو نے حیا کا سفینہ 
مرے دوست سینہ ابھارے چلا چل 
مسلسل بتوں کی تمنا کیے جا 
مسلسل خدا کو پکارے چلا چل 
یہاں تو بہر حال جھکنا پڑے گا 
نہیں تو کسی اور دوارے چلا چل 
تجھے تو ابھی دیر تک کھیلنا ہے 
اسی میں تو ہے جیت ہارے چلا چل 
نہ دے فرصت دم زدن او زمانے 
نئے سے نیا تیر مارے چلا چل 
شب تار ہے تابہ صبح قیامت 
مقدر ہے گردش ستارے چلا چل 
کہاں سے چلا تھا کہاں تک چلے گا 
چلا چل مسافت کے مارے چلا چل 
بصیرت نہیں ہے تو سیرت بھی کیوں ہو 
فقط شکل و صورت سنوارے چلا چل 
حفیظؔ اس نئے دور میں تجھ کو فن کا 
نشہ ہے تو پیارے اتارے چلا چل 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *