اے خدا حسرت و جذبات کے مارے ہوئے لوگ اب کہاں جائیں یہ حالات کے مارے ہوئے لوگ تیری دنیا کی کہانی بھی عجب ہے مولا در بدر رہتے ہیں حق بات کے مارے ہوئے لوگ صبح نو کے لئے زنبیل طلب لائے ہیں دشت ویراں میں سیہ رات کے مارے ہوئے لوگ تو بھی آرام ذرا کر لے غبار منزل ابھی سوئے ہیں مسافات کے مارے ہوئے لوگ ہو کے مایوس پری خانے سے لوٹے شوقیؔ جانے کیوں شوخ اشارات کے مارے ہوئے لوگ