اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئنہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منہ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگر کاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تا شمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرۂ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میرؔ ہم اس کام کو کر کر
میر تقی میر