باب میں جڑ رہا ہے باب اک اور لکھی جائے گی اب کتاب اک اور الٹے پلٹے سے منظروں کا ہجوم خواب میں دکھ رہا ہے خواب اک اور دل کو بس جرأت سخن دینا خواہ اترتی رہے نقاب اک اور ختم ہوگا یہ سلسلہ کس دن اک سوال اور پھر جواب اک اور منفی و جمع ضرب اور تقسیم ان سے اوپر بھی ہے حساب اک اور رونے والے بھی زندگی جی پائیں ان کے ہاتھوں میں دو کتاب اک اور ان کی تکمیل کتنی مشکل ہے خواب میں خواب اس میں خواب اک اور زاہدؔ اس کو خدا تو مان لیا جی میں ہے دوں اسے خطاب اک اور