بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے
زندگی سے یہ مرا دوسرا سمجھوتا ہے
لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مری آنکھوں تک
رت جگے کاشت نہ کر لے تو وہ کب سوتا ہے
جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک
میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے
نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا
آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے
تیرے بخشے ہوئے اک غم کا کرشمہ ہے کہ اب
جو بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے
سو گئے شہر محبت کے سبھی داغ و چراغ
ایک سایہ پس دیوار ابھی روتا ہے
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
غلام محمد قاصر