بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ کہنے کو اختیار سا ہے کچھ منتظر اس کی گرد راہ کے تھے آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ کیا ہے دیکھو ہو جو ادھر ہر دم اور چتون میں پیار سا ہے کچھ ضعف پیری میں زندگانی بھی دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ اس کی برہم زنیٔ مژگاں سے دل میں اب خار خار سا ہے کچھ جیسے عنقا کہاں ہیں ہم اے میرؔ شہروں میں اشتہار سا ہے کچھ