Iztirab

Iztirab

بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب

بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گل خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن مجھے جمال ترا
مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم
ترے نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
ہم اس قبیلہ وحشی کہ دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
.وفا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں

احمد فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *