بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب حسین تر ہے مگر ہر گل خیال ترا ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں تجھے عزیز مرا فن مجھے جمال ترا مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم ترے نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی ہم اس قبیلہ وحشی کہ دیوتا ہیں کہ جو پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی .وفا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
احمد فراز