بہت مشکل کی خواہش کو کبھی آساں نہیں دیکھا
نیا انساں بنانے میں کوئی انساں نہیں دیکھا
وہاں برسات دیکھی ہے جہاں امکاں نہیں دیکھا
ابھی تک اس پر امیدی نے ریگستاں نہیں دیکھا
گماں گزرے تعلق پر کہ جب ترک تعلق پر
مجھے رونا نہیں آیا اسے حیراں نہیں دیکھا
اگرچہ دیکھتے رہتے ہیں پر دیکھا نہیں جاتا
کئی ویرانیاں دیکھی ہیں گھر ویراں نہیں دیکھا
نگاہیں ساری ان پہ ہیں تعجب سارا ہم پہ ہے
تو کیا سچ میں نہیں دیکھا ارے ہاں ہاں نہیں دیکھا
نظر تم نے گنوا دی ہے مگر آنکھیں تو باقی ہیں
بہت ممکن ہے تم نے بھی رخ جاناں نہیں دیکھا
عامر اظہر