نہ جانے کون وہ بہروپیا ہے
جو ہر شب
مری تھکی ہوئی پلکوں کی سبز چھاؤں میں
طرح طرح کے کرشمے دکھایا کرتا ہے
لپکتی سرخ لپٹ
جھومتی ہوئی ڈالی
چمکتے تال کے پانی میں ڈوبتا پتھر
ابھرتے پھیلتے گھیروں میں تیرتے خنجر
اچھلتی گیند ربڑ کی سدھے ہوئے دو ہاتھ
سلگتے کھیت کی مٹی پہ ٹوٹتی برسات
عجیب خواب ہیں یہ
بنا وضو کئے سوئی نہیں کبھی میں تو
میں سوچتی ہوں
کسی روز اپنی بھابی کے
چمکتے پاؤں کی پازیب توڑ کر رکھ دوں
بڑی شریر ہے ہر وقت شور کرتی ہیں
کسی طرح سہی بے خواب نیند تو آئے
گھڑی گھڑی کی مصیبت سے جان چھٹ جائے
ندا فاضلی