بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانانہ
اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آ جانا
کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی
اب رخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ
زاہد میرے قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جانانہ
کیا لطف ہو محشر میں میں شکوے کئے جاؤں
وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ
ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا
شیشے پہ گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ
معلوم نہیں بیدمؔ میں کون ہوں اور کیا ہوں
یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ
بیدم شاہ وارثی