Iztirab

Iztirab

تتلی

تتلی اہا جی تتلی 
رنگین اور چتلی 
ننھی سی بھولی بھالی 
پھولوں سے بھی نرالی 
باغوں میں رہنے والی 

رنگت پروں کی گہری 
کچھ سرخ کچھ سنہری 
دونوں پروں میں دھاری 
قدرت نے ہے سنواری 
لگتی ہے کیسی پیاری 

پہنی ہے تنگ کرتی 
اس پر غضب کی پھرتی 
پل میں اگر یہاں ہے 
دیکھو تو پھر وہاں ہے 
بتلاؤ اب کہاں ہے 

دیکھو وہ جا رہی ہے 
اے لو وہ آ رہی ہے 
پھولوں کے پاس آئی 
آئی مگر نہ بیٹھی 
پھر اس طرف کو پلٹی 
اب چپکے چپکے جاؤں 
اس کو پکڑ کے لاؤں 
چکر لگا رہا ہوں 
اس کو تھکا رہا ہوں 
پھرتی دکھا رہا ہوں 

اف تیز ہے یہ کتنی 
تتلی ہے یا کہ فتنی 
اک تاک بھی جمائی 
پھر دوڑ بھی لگائی 
لیکن نہ ہاتھ آئی 

اک تو نہیں بہت ہیں 
یہ ہر کہیں بہت ہیں 
پر ان کے پیارے پیارے 
جن پر کھلے ہیں تارے 
دیتے ہیں کیا نظارے 

دیکھو تو ڈھنگ ان کے 
جانچو تو رنگ ان کے 
بالکل سفید کوئی 
اک زرد اک گلابی 
اک آتشی پیازی 

ننھی سی جان ان کی 
یہ آن بان ان کی 
یہ موہنی سی مورت 
ہے کتنی خوب صورت 
اللہ تیری قدرت 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *