تجاہل تغافل تساہل کیا ہوا کام مشکل توکل کیا نہیں تاب لاتا دل زار اب بہت ہم نے صبر و تحمل کیا زمین غزل ملک سی ہو گئی یہ قطعہ تصرف میں بالکل کیا جنوں تھا نہ مجھ کو نہ چپ رہ سکا کہ زنجیر ٹوٹی تو میں غل کیا ہمیں شوق نے صاحبو کھو دیا غلاموں سے اس کے توسل کیا نہ سوز دروں فصل گل میں چھپا سر و سینہ سے داغ نے گل کیا حقیقت نہ میرؔ اپنی سمجھی گئی شب و روز ہم نے تامل کیا