ترے قریب جو چپکے کھڑا ہوا تھا میں بتاؤں کیسے کہ خود سے ڈرا ہوا تھا میں جہاں سے آگے کہیں ہم بچھڑنے والے تھے پلٹ کے دیکھا وہیں پر رکا ہوا تھا میں اجاڑ شہر ہوں اور دیکھنے کے قابل ہوں سنا گیا ہے کہ اک دن بسا ہوا تھا میں بلا رہی تھی بہت ایک لمبی نیند مجھے نہیں یہ یاد کہ کتنا جگا ہوا تھا میں فنا سے گزروں تو کچھ آشکار ہو شاید کہ زندگی میں معما بنا ہوا تھا میں
شہریار