Iztirab

Iztirab

ترے قریب جو چپکے کھڑا ہوا تھا میں

ترے قریب جو چپکے کھڑا ہوا تھا میں 
بتاؤں کیسے کہ خود سے ڈرا ہوا تھا میں 
جہاں سے آگے کہیں ہم بچھڑنے والے تھے 
پلٹ کے دیکھا وہیں پر رکا ہوا تھا میں 
اجاڑ شہر ہوں اور دیکھنے کے قابل ہوں 
سنا گیا ہے کہ اک دن بسا ہوا تھا میں 
بلا رہی تھی بہت ایک لمبی نیند مجھے 
نہیں یہ یاد کہ کتنا جگا ہوا تھا میں 
فنا سے گزروں تو کچھ آشکار ہو شاید 
کہ زندگی میں معما بنا ہوا تھا میں 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *