تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے
بے طاقتیٔ دل کو بھی مقدور ہوا ہے
پہنچا نہیں کیا سمع مبارک میں مرا حال
یہ قصہ تو اس شہر میں مشہور ہوا ہے
بے خوابی تری آنکھوں پہ دیکھوں ہوں مگر رات
افسانہ مرے حال کا مذکور ہوا ہے
کیا سوجھے اسے جس کے ہو یوسف ہی نظر میں
یعقوب بجا آنکھوں سے معذور ہوا ہے
کل صبح ہی مستی میں سر راہ نہ آیا
یاں آج مرا شیشۂ دل چور ہوا ہے
پر شور سے ہے عشق مغنی پسراں کے
یہ کاسۂ سر کاسۂ طنبور ہوا ہے
تلوار لیے پھرنا تو اب اس کا سنا میں
نزدیک مرے کب کا یہ سر دور ہوا ہے
خورشید کی محشر میں تپش ہوگی کہاں تک
کیا ساتھ مرے داغوں کے محشور ہوا ہے
اس شوق کو ٹک دیکھ کہ چشم نگراں ہے
جو زخم جگر کا مرے ناسور ہوا ہے
اے رشک سحر بزم میں لے منہ پہ نقاب اب
اک شمع کا چہرہ ہے سو بے نور ہوا ہے
میر تقی میر