تو اب کے عجب طرح ملا ہے چہرہ تو وہی ہے دل نیا ہے سنتا ہی نہیں ہے ایک میری دل تیرے مزاج پر گیا ہے تنہا بھی نہیں مگر ترے بعد شاموں کا اداس سلسلہ ہے پلکوں پہ ہے کچھ نمی ادھر بھی دل آج ادھر بھی رو دیا ہے چمکا ہے یہ کون جس کے آگے سورج سا چراغ بجھ گیا ہے فرصت اسے ہو تو اس سے پوچھوں میرے لیے اس کا حکم کیا ہے