Iztirab

Iztirab

تیز احساس خودی درکار ہے

تیز احساس خودی درکار ہے 
زندگی کو زندگی درکار ہے 
جو چڑھا جائے خمستان جہاں 
ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے 
دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام 
آدمی کو آدمی درکار ہے 
سو گلستاں جس اداسی پر نثار 
مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے 
شاعری ہے سربسر تہذیب‌ قلب 
اس کو غم شائستگی درکار ہے 
شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز 
وہ خلوص باطنی درکار ہے 
خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا 
شاعری کو ساحری درکار ہے 
قادر مطلق کو بھی انسان کی 
سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے 
اور ہوں گے طالب مدح جہاں 
مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے 
عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی 
اک ذرا دیوانگی درکار ہے 
ہوش والوں کو بھی میری رائے میں 
ایک گونہ بے خودی درکار ہے 
خطرۂ بسیار دانی کی قسم 
علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے 
دوستو کافی نہیں چشم خرد 
عشق کو بھی روشنی درکار ہے 
میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط 
آپ کو تو شاعری درکار ہے 
تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات 
مجھ کو تیری دوستی درکار ہے 
میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ 
آج تیری ناخوشی درکار ہے 
اس کی زلف آراستہ پیراستہ 
اک ذرا سی برہمی درکار ہے 
زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں 
آج مجھ کو بے دلی درکار ہے 
حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار 
مجھ کو تیری ابتری درکار ہے 
عقل نے کل میرے کانوں میں کہا 
مجھ کو تیری زندگی درکار ہے 
تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ 
اک ذرا آہستگی درکار ہے 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *