تیز احساس خودی درکار ہے زندگی کو زندگی درکار ہے جو چڑھا جائے خمستان جہاں ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام آدمی کو آدمی درکار ہے سو گلستاں جس اداسی پر نثار مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے شاعری ہے سربسر تہذیب قلب اس کو غم شائستگی درکار ہے شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز وہ خلوص باطنی درکار ہے خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا شاعری کو ساحری درکار ہے قادر مطلق کو بھی انسان کی سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے اور ہوں گے طالب مدح جہاں مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی اک ذرا دیوانگی درکار ہے ہوش والوں کو بھی میری رائے میں ایک گونہ بے خودی درکار ہے خطرۂ بسیار دانی کی قسم علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے دوستو کافی نہیں چشم خرد عشق کو بھی روشنی درکار ہے میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط آپ کو تو شاعری درکار ہے تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات مجھ کو تیری دوستی درکار ہے میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ آج تیری ناخوشی درکار ہے اس کی زلف آراستہ پیراستہ اک ذرا سی برہمی درکار ہے زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں آج مجھ کو بے دلی درکار ہے حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار مجھ کو تیری ابتری درکار ہے عقل نے کل میرے کانوں میں کہا مجھ کو تیری زندگی درکار ہے تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ اک ذرا آہستگی درکار ہے
فراق گورکھپوری