جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے
مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
واعظ نہیں کیفیت مے خانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے
مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
میر تقی میر