جزیرے کی طرح میری نشانی کس لیے ہے
مرے چاروں طرف پانی ہی پانی کس لیے ہے
میں اکثر سوچتا ہوں دل کی گہرائی میں جا کر
زمیں پر ایک چادر آسمانی کس لیے ہے
بظاہر پر سکوں اور دل کی ہر اک رگ سلامت
تو زیر سطح دریا اک روانی کس لیے ہے
میں ٹوٹا ہوں تو اپنی کرچیاں بھی جوڑ لوں گا
بکھرنے پر مرے یہ شادمانی کس لیے ہے
یہ دل بے حوصلہ دل میرے کہنے میں نہیں جب
تو اپنے دل کی میں نے بات مانی کس لیے ہے
کریں لہجے بدل کر گفتگو اک دوسرے سے
ہمارے درمیاں یہ بے زبانی کس لیے ہے
سبھی کردار اپنا کام پورا کر چکے ہیں
تو آخر نا مکمل یہ کہانی کس لیے ہے
اشفاق حسین