جسے ہم کہہ سکیں اپنا کوئی ایسا نہیں ملتا ترے ہم نام ملتے ہیں کوئی تجھ سا نہیں ملتا کسی کی رخصتی کے بعد تنہائی کے عالم میں غموں کا ساتھ ہوتا ہے کوئی تنہا نہیں ملتا محبت کے سفر میں ہیں مسافر ہم مسافر تم ہمیں منزل نہیں ملتی تمہیں رستہ نہیں ملتا سمجھ لینا کوئی مقصد ہے اس کی چاپلوسی میں جھکا کر سر کوئی اخلاص سے اتنا نہیں ملتا جدھر دیکھو ادھر سچ بولنے والے ہی ملتے ہیں تعجب ہے کوئی اس دور میں جھوٹا نہیں ملتا طلب ہے روشنی کی تو جلاؤ خود دیا راہیؔ بجھانے تشنگی پیاسے کی تو دریا نہیں ملتا