Iztirab

Iztirab

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا 
بہ عجز شوق بہ حال خراب نکلے گا 
جو رنگ بانٹ کے جاتا ہے تنکے تنکے کو 
عدو زمیں کا یہی آفتاب نکلے گا 
بھری ہوئی ہے کئی دن سے دھند گلیوں میں 
نہ جانے شہر سے کب یہ عذاب نکلے گا 
جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی 
ببول بوئے تو کیسے گلاب نکلے گا 
ابھی تو صبح ہوئی ہے شب تمنا کی 
بہیں گے اشک تو آنکھوں سے خواب نکلے گا 
مرے گناہ بہت ہیں مگر تقابل میں 
اسی کا لطف و کرم بے حساب نکلے گا 
ملا کسی کو نہ دانشؔ کچھ آرزو کے خلاف 
پس فنا بھی یہی انتخاب نکلے گا 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *