Iztirab

Iztirab

جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے

جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
نیرنگ تماشا وہ جلوا نظر آتا ہے
آنکھوں سے اگر دیکھو پردہ نظر آتا ہے
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے
اے پردہ نشیں ضد ہے کیا چشم تمنا کو
تو دفتر گل میں بھی رسوا نظر آتا ہے
نظارہ بھی اب گم ہے بے خود ہے تماشائی
اب کون کہے اس کو جلوا نظر آتا ہے
جو کچھ تھی یہاں رونق سب باد چمن سے تھی
اب کنج قفس مجھ کو سونا نظر آتا ہے
احساس میں پیدا ہے پھر رنگ گلستانی
پھر داغ کوئی دل میں تازہ نظر آتا ہے
تھی فرد عمل اصغرؔ کیا دست مشیت میں
اک ایک ورق اس کا سادہ نظر آتا ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *