Iztirab

Iztirab

جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے

جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
اے شعبدہ پرداز یہ کیا طرز نظر ہے
سینے میں یہاں دل ہے نہ پہلو میں جگر ہے
اب کون ہے جو تشنۂ پیکان نظر ہے
ہے تابش انوار سے عالم تہہ و بالا
جلوہ وہ ابھی تک تہہ دامان نظر ہے
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے
ذروں کو یہاں چین نہ اجرام فلک کو
یہ قافلہ بے تاب کہاں گرم سفر ہے
خاموش یہ حیرت کدہ دہر ہے اصغرؔ
جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب طرز نظر ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *