Iztirab

Iztirab

جینے کے لیے جو مر رہے ہیں

جینے کے لیے جو مر رہے ہیں 
آغاز حیات کر رہے ہیں 
ہے حسن کا نام مفت بدنام 
لوگ اپنی طلب میں مر رہے ہیں 
غنچوں کی طرح کھلے تھے کچھ لوگ 
کرنوں کی طرح بکھر رہے ہیں 
ہے نقش قدم پہ نقش زنجیر 
دیوانے جدھر گزر رہے ہیں 
سنتا ہوں کہ آپ کے وفادار 
انجام وفا سے ڈر رہے ہیں 
ساحل کو بھی چھوڑتے نہیں لوگ 
کشتی پہ بھی پاؤں دھر رہے ہیں 
اب دشت میں نرم رو ہوا سے 
کچھ نقش قدم نکھر رہے ہیں 
روحوں میں نئی سحر کے باعث 
ذہنوں کے نشے اتر رہے ہیں 
ہم جیسے تمام نام لیوا 
دھبا ترے نام پر رہے ہیں 
خوشبو سے لدی بہار میں بھی 
ہم درد سے بہرہ ور رہے ہیں 
ہر دور کے فن شناس دانشؔ 
ناکام حصول زر رہے ہیں 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *