Iztirab

Iztirab

حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے 
دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے 
دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب 
اپنے ذمے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے 
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب 
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے 
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل 
ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے کب سے 
پر کرو جام کے شاید ہو اسی لحظہ رواں 
روک رکھا ہے جو اک تیر قضا نے کب سے 
فیض پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد 
.لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کہ فسانے کب سے 

فیض احمد فیض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *