Iztirab

Iztirab

حسن نے سیکھیں غریب آزاریاں

حسن نے سیکھیں غریب آزاریاں 
عشق کی مجبوریاں لاچاریاں 
بہہ گیا دل حسرتوں کے خون میں 
لے گئیں بیمار کو بیماریاں 
سوچ کر غم دیجئے ایسا نہ ہو 
آپ کو کرنی پڑیں غم خواریاں 
دار کے قدموں میں بھی پہنچی نہ عقل 
عشق ہی کے سر رہیں سرداریاں 
اک طرف جنس وفا قیمت طلب 
اک طرف میں اور مری ناداریاں 
ہوتے ہوتے جان دوبھر ہو گئی 
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئیں بے زاریاں 
تم نے دنیا ہی بدل ڈالی مری 
اب تو رہنے دو یہ دنیا داریاں 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *