Iztirab

Iztirab

حکایات لب و رخسار سے آگے نہیں جاتے

حکایات لب و رخسار سے آگے نہیں جاتے 
وہ نغمے جو تمہارے پیار سے آگے نہیں جاتے 
کمندیں ڈالنے آئے تھے جو بام ثریا پر 
وہی اب سایۂ دیوار سے آگے نہیں جاتے 
گدائے ذات کیا جانیں نوائے کائنات اے دل 
یہ وہ منصور ہیں جو دار سے آگے نہیں جاتے 
بڑی ہمت دکھائیں گے تو ساحل چھوڑ جائے گا 
ہمارے ناخدا منجدھار سے آگے نہیں جاتے 
عجب اہل سماعت ہیں جو زنجیروں سے گھبرا کر 
تری پازیب کی جھنکار سے آگے نہیں جاتے 
مرتب جن کو اپنی آبلہ پائی نہیں کرتی 
وہ افسانے گل و گلزار سے آگے نہیں جاتے 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *