Iztirab

Iztirab

حیات جاوداں والے نے مارا

حیات جاوداں والے نے مارا 
زباں دے کر زباں والے نے مارا 
بشر کو اس قفس میں تنگ کر کے 
زمیں و آسماں والے نے مارا 
نگاہیں کام دیتی ہیں نہ راہیں 
مکان و لا مکاں والے نے مارا 
گوارا ہے دوامی تلخ کامی 
کسی میٹھی زباں والے نے مارا 
نصیحت گر کو سمجھاؤ خدارا 
کہ اس سود و زیاں والے نے مارا 
کوئی حد بھی ہے تسلیم و رضا کی 
مسلسل امتحاں والے نے مارا 
وہ دل میں ہے دل آنکھوں میں نہاں ہے 
نشاں دے کر نشاں والے نے مارا 
سوئے منزل لیے جاتا ہے ظالم 
ہمیں اس کارواں والے نے مارا 
ہمیشہ کے لیے خاموش ہو کر 
نئی طرز فغاں والے نے مارا 
مجھے کم ظرف کہلانا پڑے گا 
متاع دو جہاں والے نے مارا 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *