خاموش تھے تم اور بولتا تھا بس ایک ستارہ آنکھوں میں
میں کیسے نہ رکتا چلنے لگا جب سرخ اشارہ آنکھوں میں
منظر میں کناروں سے باہر دریائے محبت بہتا ہے
اور پس منظر میں نیلے سے آنچل کا کنارا آنکھوں میں
ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں
پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں
اب کہنے والے کہتے ہیں اس شہر میں رات نہیں ہوتی
اک ایسا ہی دن تھا وہ چہرہ جب میں نے اتارا آنکھوں میں
سوچا ہے تمہاری آنکھوں سے اب میں ان کو ملوا ہی دوں
کچھ خواب جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جینے کا سہارا آنکھوں میں
غلام محمد قاصر