خدا کا گھر نہیں کوئی بہت پہلے ہمارے گاؤں کے اکثر بزرگوں نے اسے دیکھا تھا پوجا تھا یہیں تھا وہ یہیں بچوں کی آنکھوں میں لہکتے سبز پیڑوں میں وہ رہتا تھا ہواؤں میں مہکتا تھا ندی کے ساتھ بہتا تھا ہمارے پاس وہ آنکھیں کہاں ہیں جو پہاڑی پر چمکتی بولتی آواز کو دیکھیں ہمارے کان بہرے ہیں ہماری روح اندھی ہے ہمارے واسطے اب پھول کھلتے ہیں نہ کونپل گنگناتی ہے نہ خاموشی اکیلے میں سنہرے گیت گاتی ہے ہمارا عہد ماں کے پیٹ سے اندھا ہے بہرا ہے ہمارے آگے پیچھے موت کا تاریک پہرا ہے