Skip to content
خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے
انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے
بزم شوخی کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے
پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو
اسی دنگل میں ہمیں داؤ سکھائے بھی گئے
یاد ایام کہ اک محفل جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور ملائے بھی گئے
ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشین احوال
روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے
یاد مت رکھیو یہ روداد ہماری ہرگز
ہم تھے وہ تاج محل جون جو ڈھائے بھی گئے