Skip to content
خون تھوکے گی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک
جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
رہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شراب وصل نصیب
پیے جاؤں میں خون ہی کب تک
دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دکھن دل سے جائے گی کب تک
جس میں تھا سوز آرزو اس کا
شب غم وہ ہوا چلی کب تک
بنی آدم کی زندگی ہے عذاب
یہ خدا کو رلائے گی کب تک
حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بھلا خوشی کب تک
ہے جہنم جو یاد اب اس کی
وہ بہشت وجود تھی کب تک
وہ صبا اس کے بن جو آئی تھی
وہ اسے پوچھتی رہی کب تک
میر جونی! ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک
حال صحن وجود ٹھیرے گا
تیرا ہنگامہ رخصتی کب تک
میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک
میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پکارتی کب تک
خیمہ گاہ شمال میں آخر
اس کی خوشبو رچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جس کی ٹوٹی تھی سانس آخر شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
دوزخ ذات باوجود ترے
شب فرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دوران جاں کنی کب تک
نہیں معلوم میرے آنے پر
اسکے کوچے میں لو چلی کب تک