خون رلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن چوستا رہتا ہے رس بھونرا ابھی تک دیکھ لو پھول نے بھولے سے کی تھی سر پرستی ایک دن دینے والے نے طبیعت کیا عجب دی ہے اسے ایک دن خانہ بدوشی گھر گرہستی ایک دن کیسے کیسے لوگ دستاروں کے مالک ہو گئے بک رہی تھی شہر میں تھوڑی سی سستی ایک دن تم کو اے ویرانیوں شاید نہیں معلوم ہے ہم بنائیں گے اسی صحرا کو بستی ایک دن روز و شب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن