Iztirab

Iztirab

خیال جبہ و دستار بھی نہیں باقی

خیال جبہ و دستار بھی نہیں باقی 
وہ کشمکش ہے کہ اک تار بھی نہیں باقی 
چمن کو روند گئے قافلے بہاروں کے 
گلوں کا ذکر ہی کیا خار بھی نہیں باقی 
لگی ہوئی ہیں ضمیر حیات پر مہریں 
کسی میں جرأت اظہار بھی نہیں باقی 
کبھی کبھی جو رگ جاں سے پھوٹ پڑتا ہے 
وہ نغمۂ رسن و دار بھی نہیں باقی 
ہمیں تو کفر کا طعنہ دیا تھا واعظ نے 
حرم میں اب کوئی دیں دار بھی نہیں باقی 
لٹا جو اپنا گلستاں تو ہم نے یہ سمجھا 
کوئی بہشت افق پار بھی نہیں باقی 
گزر گئے وہ سخن فہمیوں کے ہنگامے 
کوئی کسی کا طرفدار بھی نہیں باقی 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *