دلوں میں دشمنوں کے اس طرح ڈر بول اٹھتے ہیں
گواہی کو چھپاتے ہیں تو منظر بول اٹھتے ہیں
مری سچائی میری بے گناہی سب پہ ظاہر ہے
کہ اب جنگل کنویں صحرا سمندر بول اٹھتے ہیں
وہ پتھر دل سہی لیکن ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے
ہمارے لب جنہیں چھو لیں وہ پتھر بول اٹھتے ہیں
بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے
کبھی جو موج میں آ کر قلندر بول اٹھتے ہیں
یہ کیا جادو ہے وہ جب بھی مرے ملنے کو آتا ہے
خوشی سے گھر کے سب دیوار اور در بول اٹھتے ہیں
زبان حق کسی کے جبر سے بھی رک نہیں سکتی
کہ نیزے کی انی پر بھی ٹنگے سر بول اٹھتے ہیں
لبوں کی قید سے کیا فرق آیا دل کی باتوں میں
کہ سارے لفظ آنکھوں سے ابھر کر بول اٹھتے ہیں
عجب اہل ستم اہل وفا میں ٹھن گئی حیدرؔ
ستم کرتے ہیں وہ اور یہ مکرر بول اٹھتے ہیں
حیدر قریشی